EN हिंदी
عفریت | شیح شیری
ifrit

نظم

عفریت

یعقوب تصور

;

وطن کی دھرتی سے دور
جب وطن کے مارے

برہنہ تن اور تہی شکم کی طلب کی شدت
سے ہو کے مجبور

جلتے صحرا کی وسعتوں میں
مقید نار ہو گئے ہیں

نہ طوق آہن
نہ بیڑیاں ہیں

نہ ہے سلاسل کا بوجھ تن پر
جھلستے صحرا کی وسعتوں میں

سروں پہ سورج کی چھتریاں ہیں
بدن سے آب مشقت بے سکوں کی

نہریں رواں دواں ہیں