اے پرندو کسی شام اڑتے ہوئے
راستے میں اگر وہ نظر آئے تو
گیت بارش کا کوئی سنانا اسے
اے ستارو یونہی جھلملاتے ہوئے
اس کا چہرہ دریچے میں آ جائے تو
بادلوں کو بلا کر دکھانا اسے
اے ہوا جب اسے نیند آنے لگے
رات اپنے ٹھکانے پر جانے لگے
اس کے چہرے کو چھو کر جگانا اسے
خواب سے جب وہ بے دار ہونے لگے
پھول بالوں میں اپنے پرونے لگے
میرے بارے میں کچھ نہ بتانا اسے
نظم
(8)
ذیشان ساحل