مری گڑیا تری رخصت کا دن بھی آ گیا آخر
سمٹ آیا ہے آنکھوں میں تیرا بیتا ہوا بچپن
ابھی کل کی ہی باتیں ہیں تو اک ننھی سی گڑیا تھی
ابھی کل ہی تو بابا سے بڑی ضد کر کے مانگے تھے
گلابی رنگ کے کپڑے وہ جوتے تتلیوں والے
ابھی کل ہی تو لایا تھا میں پہلی بار اک چوڑی
جسے جب تم نے پہنا تو کلائی سے بڑی نکلی
پھسل کر ہاتھ سے تیرے تجھے غصہ دلاتی تھی
ابھی کل ہی تو بابا کو پکڑنے بھیجتی تھیں تم
کبھی اڑتی ہوئی چڑیا کبھی تارے کبھی چندا
اور اب ایسا ہے کہ وقت جدائی سر پہ آیا ہے
تری بارات لے کر آ گیا ہے تیرا شہزادہ
بظاہر خوش کھڑا ہوں میں مگر ٹوٹا ہے دل میرا
بجی ہے جب سے شہنائی تڑ اٹھا ہے دل میرا
مرے آنگن میں ٹھہریں گی تری یادیں تری باتیں
چلی جائے گی تیرے ساتھ ہی رونق مرے گھر کی
یہ میرے ساتھ چھپ چھپ کر ہزاروں بار روئیں گے
تری رخصت پہ اے بیٹی در و دیوار روئیں گے
نظم
رخصتی
سہیل ثانی