EN हिंदी
آدھے راستے میں | شیح شیری
aadhe raste mein

نظم

آدھے راستے میں

زاہد مسعود

;

مجھے گھر جانے دو
میں چھت کو جانے والی سیڑھی پر بیٹھ کر

رنگ برنگی پتنگوں
اور اڑتے ہوئے سفید کبوتروں کو دیکھنا چاہتا ہوں

مجھے گھر جانے دو
میرے گھر کی پچھلی گلی میں سرسراتی ٹھنڈی ہوا

ایک دھانی آنچل
اور کھڑکیوں میں سجے پھول میرے منتظر ہیں

میں شیشم کے تنے پر کھدا ہوا آدھا دن
چھوٹے چھوٹے خوابوں والی صندوقچی

اور مٹی کے آب خورے میں پڑا واپسی کا تعویذ
وہیں بھول آیا ہوں

مجھے گھر جانے دو