EN हिंदी
شفق گوں سبزہ | شیح شیری
shafaq-gun sabza

نظم

شفق گوں سبزہ

ترنم ریاض

;

بڑی تکلیف تھی تحریر کو منزل پہ لانے میں
تناؤ کا عجب اک جال سا پھیلا تھا چہرے پر

کھنچے تھے ابروؤں میں سیدھے خط
پیشانی پر آڑی لکیریں تھیں

خمیدہ ہوتے گاہے لب
کبھی مژگاں الجھ پڑتی تھیں باہم

گرا کر پردۂ چشم اپنی آنکھوں پر
غرق ہو جاتی سوچوں میں

کہ افسانے میں دیوانے کا کیا انجام لکھوں
اور اسی میں دوپہر ڈھل گئی

نظر کھڑکی کی جانب جب اٹھی تو
دیکھا شام آتی ہے عظمت سے

شجر پتے عجب سے نور میں روشن ہیں
شامل ہیں بہت سے رنگ جس میں

قرمزی کرنوں نے
سبزے کو شفق گوں سا منعکس کر کے

ملکوتی فضا میں ڈھال کر
میری نگاہوں تک بڑی عجلت سے لایا ہے

میں اس کو دیکھنے میں گر نہ کچھ پل خود کو گم کرتی
تو ماتھے کے شکن چہرے پہ چھایا یہ تناؤ

بے سکوں آنکھیں
سبھی مل کر مرے دل کو بجھا دیتے