ہجوم رنج و الم
کئی پیکروں میں ڈھل کر چہار جانب پہ چھا رہا ہے
زمین آتش فشاں ہے اور آسمان سے بارش ستم ہے
سمندروں میں غضب کے طوفاں
سلگتے جلتے ہوئے کٹھن راستوں میں پتھر
ہم ان کے نرغے میں
استقامت سے چل رہے ہیں
قدم قدم گر رہے ہیں گر کر سنبھل رہے ہیں
یہ اس کی چاہت کی آزمائش ہے
اور بے لوث و بے غرض جذبۂ وفا کا
حسین تحفہ
یہ اس کی چاہت کی اک سند ہے
یہ اس کی نظروں میں امتحاں ہے
نظم
امتحان
یعقوب تصور