وہ ہنس مکھ اور حسیں لڑکی
جو اب تک مجھ میں زندہ ہے
نہیں بدلی ہے وہ اب تک
اسی فطرت میں روشن ہے
اسی حیرت میں زندہ ہے
گزرتے وقت کے ہم رہ
بہت منظر بدلتے ہیں
ہوا کے رخ بدلتے ہیں
ہماری ذات کے یوں تو
سبھی موسم بدلتے ہیں
نہیں بدلی ہے وہ اب تک
وہ ہنس مکھ اور حسیں لڑکی
مگر میں جانتی کب ہوں
وہ مجھ میں مر چکی ہے
یا ہے وہ زندہ
نظم
اسی فطرت میں روشن ہیں
یاسمین حمید