EN हिंदी
اس نے مجھ سے کہا تھا | شیح شیری
usne mujhse kaha tha

نظم

اس نے مجھ سے کہا تھا

یٰسین قدرت

;

ملگجی عرض غم زرد سا آسماں
اور افق تا افق اور شفق در شفق

سرمئی بادلوں میں اداسی کے رنگ
اس کے کمرے کے ماحول میں

اک ملال آفریں کیفیت
اس کی نرگس سی آنکھوں میں لرزاں حنائی

نشاں
الاماں

اس کا غنچہ دہن
ادھ کھلے پھول سا

اس کے رخسار پر
سرخیوں کی پھبن

اور براق ہاتھوں پہ رکھی ہوئی زندگی
وہ مری زندگی

درد کے سلسلے
پھول افسردہ کلیاں نڈھال

کھنڈروں کی مثال
بام اجڑے ہوئے

حیرتوں کے سفر
ہجرتوں کے نگر

اور بے رنگ افسردہ پژمردہ اطراف کا شور و شر
اس کی یادوں کے دکھ

اس کی دوری کے غم
نارسائی کے ارمان

اور کرب کی دھند میں
اس کی ہجرت کے دکھ

میں جو پلٹوں تو ماضی کی بیزاریاں
بال کھولے ہوئے ماتمی رنگ میں پرفشاں

ایک برزخ کی وہ رات تھی
گونجتی رات تھی

جبکہ کمرے میں سب جمع تھے
اس نے مجھ سے کہا

چلو آج باہر کا موسم بہت دل نشیں ہے