وہ ایک شب تھی سفید گلابوں والے تالاب کے بالکل نزدیک
بادلوں کی پہلی آہٹ پر
اس نے رکھ دیے ہونٹ ہونٹوں پر
موسیقی کی تتلی گیت گانے لگی
اس کے سانسوں کے آس پاس
اس کی خوشبوؤں کے گھنگھرو
بج رہے تھے اس شب
ہوا کی سفید گلابی چھتوں پر
وہ امڈ رہی تھی
ایک تیز سمندری لہر کی طرح
وہ جسم پر نقش ہو رہی تھی
تتلیوں سے بھرے ہوئے ایک خواب کی طرح
وہ ایک شب سفید گلابوں والے تالاب کے بالکل نزدیک
شب بھر بادلوں کی ہلکی اور تیز آہٹیں
اور شب بھر
ہونٹ ہونٹوں پر
سانس سانسوں پر
اور جسم جسم کی سفید گلابی چھتوں پر
نظم
ایک رات سفید گلابوں والے تالاب کے پاس
تبسم کاشمیری