اپنی تاریخ کے اہراموں میں اتر کر دیکھیں
عذاب مسلسل کی یہ فصل
ہمارے پاس تاریخ کی نشانی ہے
یا سرخ سیاہی سے ہماری نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے
وہ آنکھیں، وہ ہاتھ، وہ چہرے
اب کون ڈھونڈے۔۔۔؟
جنہوں نے حادثوں کو یہاں چلنا سکھایا
اگر وہ مل بھی جائیں۔۔۔
تو انہیں کون پہچانے گا؟
انہوں نے تو اپنے چہرے سب میں بانٹ دئے
اب تو ہر طرف ایک جیسے ہی چہرے ہیں
ہر کوئی بے چہرہ ہے
یہاں تو بس ایک ہی وقت آ کے ٹھہرا ہے
خساروں کا کڑا پہرہ ہے
مگر ممکن ہے۔۔۔
بے چہرگی کے عذاب کے اس پار
ہم سب کے چہرے قید ہوں
جس دن سب کو اپنے چہرے مل گئے
تو دل بھی مل جائیں گے
نظم
(۲) بے چہرگی
منیر احمد فردوس