سوئیاں کھانے کا
من کرتا ہے
کب ہارے میں رکھی
ہاندی اترے گی
کب ماں
سوئیاں پروسے گی
کب سے
تھالی لیے کھڑی ہوں
پہلے دھواں گہرا تھا
آنکھوں میں چبھتا تھا
کھارا تھا بہت
اب ہلکا ہے
جھینا ہے
خوشبو آتی ہے دھوئیں سے
گر گر کی آوازیں
آنے لگی ہے ماں
ہاندی اتار لو
سوئیاں پک گئی ہیں
نظم
24 واں سال
ورشا گورچھیہ