EN हिंदी
ہیں خواب میں ہنوز | شیح شیری
hain KHwab mein hunuz

نظم

ہیں خواب میں ہنوز

ظہیر صدیقی

;

وہ اک شے
کہ جس کے لیے پاک طینت بزرگوں نے

اپنے بدن ذہن کے سارے جوہر گنوائے
لہو کے گہر

خار زاروں کی پہنائیوں میں لٹائے
وہ اک شے

جسے ان جیالے بزرگوں نے جیب‌ و گریباں
دل و جاں سے بھی بڑھ کے سمجھا

جو حاصل ہوئی تو
ابھی بام و در سے سیہ رات لپٹی ہوئی تھی

سفر کی تھکن یا
گراں باری عمر نے

ان کے اعصاب کو مضمحل کر دیا تھا
انہوں نے یہ سوچا

خدا جانے سورج نکلنے تلک کیا سے کیا ہو
حسیں بے بہا شے کے حق دار

ان کے جواں سال بچے ہیں
اس کی حفاظت وہی کر سکیں گے

جواں سال بچے
ابھی بستر استراحت پہ سوئے ہوئے تھے

جگائے گئے
صبح کاذب کی دھندلاھٹوں میں

چمکتی ہوئی وہ حسیں شے
وراثت میں ان کو ملی تھی

مگر سب نے دیکھا تھا سورج نکلنے پہ
ان سست و چالاک بچوں

کے ہاتھوں میں محفوظ و قیمتی شے
بتدریج اپنی چمک کھو رہی تھی

طلسم تصور نہیں یہ حقیقت ہے
وہ بے بہا شے

کہ جس کے لئے
ہر صعوبت گوارا ہے

منزل نہیں
جستجو ہے

وہ اک چیز جس پر نچھاور
جیالوں کا روشن لہو ہے

فقط رنگ و بو ہی نہیں
گلستاں کی ہمکتی ہوئی آرزو ہے

ہر اک نفع جائز نقصان کے بطن سے ہے
انہوں نے جو حاصل کیا وہ زیادہ تھا

اور آخر شب کے کچھ خواب کو جو گنوایا
وہ کم تھا

اسی نا تناسب حصول و خسارہ کا رد عمل ہے
کہ منزل کی آغوش میں بھی

انہیں سکھ نہیں ہے