پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
سنا ہے جب کبھی شہر سبا کے حاجی بابا
اپنے شاگردوں کو درس آخری دیتے
سروں پر ان کے دستار فضیلت باندھتے
کالے عماموں میں سب ہی شاگرد صف بستہ کھڑے
یہ عہد کرتے تھے
خداوندا
ہمارے علم میں تو خیروبرکت دے
ہمیں توفیق دے ہم حاجی بابا کی طرح
شہر سبا کے چار کونوں میں نئے مکتب بنائیں
درس گاہوں کی بنا ڈالیں
سنا ہے حاجی بابا
اپنے شاگردوں کو چار حصوں میں جب تقسیم کرتے تو
زمیں کے چار کونوں سے صدائے مرحبا آتی
ہر اک سو
مشک کی خوشبو فضا میں پھیل سی جاتی
بہت دن بعد پھر ایسا ہوا تھا حاجی بابا نے
زمیں کے چار کونوں سے دھواں اٹھتے ہوئے دیکھا
جلے حرفوں کی روح ماتم کناں
شہر سبا میں مدتوں پھرتی رہی تنہا
سنا ہے پھر کبھی
شہر سبا کے حاجی بابا نے در مکتب نہیں کھولا
کسی پر کوئی کالا عمامہ پھر نہیں باندھا

نظم
حاجی بابا
زبیر رضوی