EN हिंदी
عکس ریز | شیح شیری
aks-rez

نظم

عکس ریز

تری پراری

;

صبح کے تین بجنے والے ہیں
نیند ہے دور میری آنکھوں سے

کروٹیں یوں بدل رہا ہوں میں
آخری رات جیسے روگی کی

چاندنی رس رہی ہے کھڑکی سے
اوک میں بھر کے پی رہا ہوں میں

یاد سی آ رہی ہے بچپن کی
آسماں بھر رہا ہے تاروں سے

جھینگروں کی صدا ہے کانوں میں
جگنوؤں کی کئی قطاریں ہیں

اک چٹائی بچھی ہے آنگن میں
جس پہ لیٹے ہوئے ہیں بابو جی

پاس بیٹھا ہوا ہوں میں ان کے
گن رہا ہوں حسین تاروں کو

ایک حیرت ہے میری آنکھوں میں
سات یا آٹھ کا رہا ہوں گا

سامنے میرے تھوڑی دوری پر
ایک چولہا ہے خاص مٹی کا

کھیر پوری پکا رہی ہے ماں
من ہی من گنگنا رہی ہے ماں

گھر کے چوکھٹ کے پاس ہی مدھیم
اک نیا لالٹین جلتا ہے

دوسری سمت میرے آنگن کے
ساتھ بچھڑے کے گائے بیٹھی ہے

کر رہی ہے جگالی دھیرے سے
یاد اب مٹ رہی ہے بچپن کی

صبح کے پانچ بج چکے ہیں اور
چاندنی جا چکی ہے کمرے سے

اونگھتا ہے وہ آخری تارہ
شور کرنے لگے ہیں کچھ پنچھی

اک مؤذن اذان دیتا ہے
بات کچھ اور دیر کی ہی ہے

سرخ سورج دکھائی دے گا اب
پھیل جائے گی دھوپ آہستہ

اور میں روز کی طرح اپنی
لاش ہاتھوں میں خود اٹھاؤں گا

اور بھٹکوں گا شہر میں دن بھر
صرف دو گز کفن کی خاطر پر

کون جانے کفن ملے نہ ملے
روح کو اک بدن ملے نہ ملے