خزاں کے جاتے ہی رت کا پانسہ پلٹ گیا ہے
بہار کی خوشبوؤں سے گلشن کا ذرہ ذرہ مہک رہا ہے
زمیں کی رنگت بدل گئی ہے
کبھی تغیر جو موسموں کا
نرالے گیتوں کے ساتھ آیا
تو زندگی کی عزیز تر ساعتوں کے مالک
بھڑک اٹھے تھے
پلک پلک پر کئی کہے ان کہے فسانے
مچل گئے تھے
تو قند گفتار میں بھی تلخی رچی ہوئی تھی
فضا کی آلودگی کا شکوہ تھا ان کے لب پر
شنیدہ باتوں کا خوف ان کے دلوں میں ایسا بسا ہوا تھا
کہ وہ کسی بات پر یقیں بھی نہ کرنے پاتے
گرے تھے ان کی سماعتوں اور بصارتوں پر دبیز پردے
کبھی جو موسم نے رخ جو بدلا
تو ان کے ہوش و حواس جاگے
انہوں نے قدرت کے رنگ دیکھے
تو زندگی کا یقین آیا
بہار کی سمت لوٹ آئے

نظم
واپسی
تاج سعید