EN हिंदी
تجھے کیا خبر | شیح شیری
tujhe kya KHabar

نظم

تجھے کیا خبر

طالب انصاری

;

تری آرزو
جسے میں نے سب سے الگ رکھا

اسے دل کے نرم غلاف سے
کبھی جھانکنے بھی نہیں دیا

کہ یہ خواہشوں کے ہجوم میں
کہیں اپنی قدر گنوا نہ دے

تری چھوٹی چھوٹی نشانیوں کو
بڑے قرینے سے پوٹلی میں لپیٹ کر

کبھی کوٹھری میں چھپا دیا
کبھی ٹانڈ پر رکھے دیگچے میں گرا دیا

کہ پرے پرے رہیں چشم چرخ کبود سے
کبھی زیر لب ترا نام بھی

کہیں لے لیا
تو تمام شب اسی وسوسے میں گزر گئی

کہ خموشیوں میں ڈھلا ہوا یہ سرود غم
کسی کم شناس نے سن لیا

تو نہ بچ سکے گا وقار حرمت
اسی احتیاط میں کٹ گئی ہے مری حیات کی دوپہر

مرے چارہ گر تجھے کیا خبر
مجھے آج بھی تری لاج کا وہی پہلے جیسا خیال ہے

نہ تو فکر شام فراق ہے
نہ امید‌ صبح وصال ہے