یہ وہ دلی ہے کہ دل سے جس کے دیوانے ہیں ہم
یہ وہ شمع زندگی ہے جس کے پروانے ہیں ہم
آئنہ ہے ہم سے اس کے عہد زریں کی جھلک
اس کے تہذیب و ادب کے آئینہ خانے ہیں ہم
علم و فن کے موتیوں پہ جم گیا گرد و غبار
خاک کے ذرات میں ملبوس دردانے ہیں ہم
ہم پہ رہتی ہے نگاہ شفقت اہل نظر
محفل شعر و ادب میں جانے پہچانے ہیں ہم
حاضر خدمت کیا ہے جوہر قلب و دماغ
کم نگاہوں کی نظر میں پھر بھی بیگانے ہیں ہم
اب تو خویش وغیرہ کہتے ہیں ہمیں کچھ اور ہی
جب تو اک دنیا سمجھو تھی کہ فرزانے ہیں ہم
تمکنت سوداؔ کی طالبؔ میرؔ کا رکھتے ہیں دردؔ
باغ تو جانے ہے سارا پر نہ کچھ جانے ہیں ہم

نظم
دلی اور ہم
طالب چکوالی