ابھی پرچھائیاں اونچے درختوں کی
جدا لگتی ہیں رنگ آسماں سے
ذرا پہلے گیا ہے اک پرندہ باغ کی جانب
ادھر سے آنے والے ایک طیارے کی رنگیں بتیاں
روشن نہیں اتنی
وہ نکلی ہیں سبھی چمگادڑیں اپنے ٹھکانوں سے
بڑا مبہم سا آیا ہے نظر زہرا فلک کے بیچ
ٹی کوزی کے نیچے ہے گرم اب بھی بچا پانی
کسی نے مجھ کو اندر سے نہیں آواز بھی دی
میں
ذرا بر آمدے میں اور رہ لوں
فسوں میں شام کے پرواسی بہہ لوں
نظم
شام کا سحر
ترنم ریاض