ظلمت ہے تو پھر شعلۂ شب گیر نکالو
خورشید کوئی شب کا جگر چیر نکالو
کٹتا ہے کبھی ناخن انگشت سے کہسار
پتھر نہ کریدو کوئی تدبیر نکالو
میں گل ہوں مجھے شاخ پہ کھلنا ہے بہ ہر طور
تم خاک سے گل خیزی کی تاثیر نکالو
تم روغن خوں برش شمشیر سے بھر کر
جو چاہو مرے جسم سے تصویر نکالو
جو ذہن میں تھا خواب میں دیکھا ہے وہی کچھ
جو چاہو اب اس خواب کی تعبیر نکالو
یہ شہر شکستہ ہے نئے شہر کی بنیاد
اک تازہ در و بام کی تعمیر نکالو
اوراق شب رفتہ سیہ ہوں گے مگر تم
اس باب سے یہ سرخئ تحریر نکالو
غزل
ظلمت ہے تو پھر شعلۂ شب گیر نکالو
سلیم شاہد