ظلمت شب ہی سحر ہو جائے گی
شدت غم چارہ گر ہو جائے گی
رونے والے یوں مصیبت پر نہ رو
زندگی اک درد سر ہو جائے گی
بعد تعمیر مکاں زنجیر غم
الفت دیوار و در ہو جائے گی
لا دلیل عشق و مستی درمیاں
ختم بحث خیر و شر ہو جائے گی
ذکر اپنا جا بجا اچھا نہیں
سب کہانی بے اثر ہو جائے گی
صبح راحت کے تصور کے طفیل
ہر شب غم مختصر ہو جائے گی
صرف و عزم آتشیں درکار ہے
عمر سرگرم سفر ہو جائے گی
آ رہا ہے انقلاب حشر خیز
زندگی زیر و زبر ہو جائے گی
غزل
ظلمت شب ہی سحر ہو جائے گی
سکندر علی وجد