EN हिंदी
ظلمت دشت عدم میں بھی اگر جاؤں گا | شیح شیری
zulmat-e-dasht-e-adam mein bhi agar jaunga

غزل

ظلمت دشت عدم میں بھی اگر جاؤں گا

اثر صہبائی

;

ظلمت دشت عدم میں بھی اگر جاؤں گا
لے کے ہمراہ مہ داغ جگر جاؤں گا

عارض گل ہوں نہ میں دیدۂ بلبل گلچیں
ایک جھونکا ہوں فقط سن سے گزر جاؤں گا

اے فنا ٹوٹ سکے گی نہ کبھی کشتی عمر
میں کسی اور سمندر میں اتر جاؤں گا

دیکھ جی بھر کے مگر توڑ نہ مجھ کو گلچیں
ہاتھ بھی تو نے لگایا تو بکھر جاؤں گا

ایک قطرہ ہوں مگر سیل محبت سے ترے
ہو سکے جو نہ سمندر سے بھی کر جاؤں گا

دور گلشن سے کسی دشت میں لے جا صیاد
ہم صفیروں کے ترانوں میں تو مر جاؤں گا

صحن گلشن میں کئی دام بچھے ہیں اے اثرؔ
اڑ کے جاؤں بھی اگر میں تو کدھر جاؤں گا