ظلم مجھ پر شدید کر بیٹھے
پھر وو کار یزید کر بیٹھے
ہے وفائی بھی وو نبھا نہ سکے
ہم وفا کی امید کر بیٹھے
جن پہ مرتا تھا تو وہ صد افسوس
مرے مرنے پہ عید کر بیٹھے
کس قدر خوش نصیب ہوگا وو جو
تری خوابوں میں دید کر بیٹھے
ہم تھے خوشیوں کو بیچنے نکلے
درد و غم کی خرید کر بیٹھے
کاش نفرت کے لیڈروں کو کوئی
دو طمانچے رسید کر بیٹھے
ایسی دولت کا فائدہ کیا ہے
جو خدا سے بعید کر بیٹھے
کون جانے کہ عشق میں کتنے
اپنی مٹی پلید کر بیٹھے
مٹ گئی قدر مر گئے آداب
ہم یوں خود کو جدید کر بیٹھے
کاش یہ میری شاعری عارفؔ
اس کو میرا مرید کر بیٹھے
غزل
ظلم مجھ پر شدید کر بیٹھے
سید محمد عسکری عارف