EN हिंदी
زلف سے نسبت ناکام لیے پھرتے ہیں | شیح شیری
zulf se nisbat-e-nakaam liye phirte hain

غزل

زلف سے نسبت ناکام لیے پھرتے ہیں

سید رضا

;

زلف سے نسبت ناکام لیے پھرتے ہیں
دھوپ میں شائبۂ شام لیے پھرتے ہیں

مردہ بستی ہے خبر کون کسی کی لے گا
ساتھ میں دشمن و دشنام لیے پھرتے ہیں

اب جنوں میں بھی تو بے ہوش نہیں دیوانے
رو بہ صحرا ہیں در و بام لیے پھرتے ہیں

سرد چپ چاپ زمینوں کی طرح ہی ہم لوگ
اپنے اندر کوئی کہرام لیے پھرتے ہیں

ہر قدم کھلتا ہے اک بند گلی کی جانب
ہر نفس خدشۂ انجام لیے پھرتے ہیں

منفرد اپنے خد و خال نہ خاکہ اپنا
وہ جو اگلوں نے رکھا نام لیے پھرتے ہیں