زلف جو رخ پر ترے اے مہر طلعت کھل گئی
ہم کو اپنی تیرہ روزی کی حقیقت کھل گئی
کیا تماشا ہے رگ لیلیٰ میں ڈوبا نیشتر
فصد مجنوں باعث جوش محبت کھل گئی
دل کا سودا اک نگہ پر ہے تری ٹھہرا ہوا
نرخ تو کیا پوچھتا ہے اب تو قیمت کھل گئی
آئینے کو ناز تھا کیا اپنے روئے صاف پر
آنکھ ہی پر دیکھتے ہی تیری صورت کھل گئی
تھی اسیران قفس کو آرزو پرواز کی
کھل گئی کھڑکی قفس کی کیا کہ قسمت کھل گئی
تیرے عارض پر ہوا آخر غبار خط نمود
کھل گئی آئینہ رو دل کی کدورت کھل گئی
بے تکلف آئے تم کھولے ہوئے بند قبا
اب گرہ دل کی ہمارے فی الحقیقت کھل گئی
باندھی زاہد نے توکل پر کمر سو بار چست
لیکن آخر باعث سستی ہمت کھل گئی
کھلتے کھلتے رک گئے وہ ان کو تو نے اے ظفرؔ
سچ کہو کس آنکھ سے دیکھا کہ چاہت کھل گئی
غزل
زلف جو رخ پر ترے اے مہر طلعت کھل گئی
بہادر شاہ ظفر