زلف برہم سنبھال کر چلئے
راستہ دیکھ بھال کر چلئے
موسم گل ہے اپنی بانہوں کو
میری بانہوں میں ڈال کر چلئے
مے کدے میں نہ بیٹھیے تاہم
کچھ طبیعت بحال کر چلئے
کچھ نہ دیں گے تو کیا زیاں ہوگا
حرج کیا ہے سوال کر چلئے
ہے اگر قتل عام کی نیت
جسم کی چھب نکال کر چلئے
کسی نازک بدن سے ٹکرا کر
کوئی کسب کمال کر چلئے
یا دوپٹہ نہ لیجئے سر پر
یا دوپٹہ سنبھال کر چلئے
یار دوزخ میں ہیں مقیم عدمؔ
خلد سے انتقال کر چلئے
غزل
زلف برہم سنبھال کر چلئے
عبد الحمید عدم