EN हिंदी
زوروں پہ بہت اب مری آشفتہ سری ہے | شیح شیری
zoron pe bahut ab meri aashufta-sari hai

غزل

زوروں پہ بہت اب مری آشفتہ سری ہے

جلیل قدوائی

;

زوروں پہ بہت اب مری آشفتہ سری ہے
یہ حال ہے خود سے بھی مجھے بے خبری ہے

جب سے نہیں آغوش میں وہ جان تمنا
اک سل ہے کہ ہر وقت کلیجے پہ دھری ہے

ان کی جو میسر نہیں شاداب نگاہی
پھولوں میں کوئی رنگ نہ سبزے میں تری ہے

مانا کہ محبت کے ہیں دشوار تقاضے
بے یار کے جینا بھی تو اک درد سری ہے

لپکا ہے یہ اک عمر کا جائے گا نہ ہرگز
اس گل سے طبیعت نہ بھرے گی نہ بھری ہے

اک ان کی حقیقت تو مرے دل کو ہے تسلیم
باقی ہے جو کونین میں وہ سب نظری ہے

آنکھوں میں سماتا نہیں اب اور جو کوئی
کیا جانے بصیرت ہے کہ یہ بے بصری ہے

جاگو گے شب غم میں جلیلؔ اور کہاں تک
سوتے نہیں کیوں؟ نیند تو آنکھوں میں بھری ہے