EN हिंदी
زیاں ہے جان کا یہ کاروبار مت کرنا | شیح شیری
ziyan hai jaan ka ye karobar mat karna

غزل

زیاں ہے جان کا یہ کاروبار مت کرنا

مصور سبزواری

;

زیاں ہے جان کا یہ کاروبار مت کرنا
صبا سے سائے سے خوشبو سے پیار مت کرنا

ہمیں وہاں کے بگولے بنے جو کہتے تھے
طواف کوچۂ شہر نگار مت کرنا

میں ڈھلتی دھوپ کی لو ہوں مرا بھروسہ کیا
نگاہ شام مرا انتظار مت کرنا

نہ خود تمہیں پہ کچھ الزام وقت آ جائے
ہمارا شکوۂ‌ صبر و قرار مت کرنا

یہ سچ ہے عشق ہی ثابت قدم نہیں میرا
میں کہہ رہا ہوں مرا اعتبار مت کرنا

ابھی ہے کو بہ کو پھرنا تجھے مصورؔ ابھی
امید سایۂ دیوار یار مت کرنا