EN हिंदी
زندگی یوں تو بہت عیار تھی چالاک تھی | شیح شیری
zindagi yun to bahut ayyar thi chaalak thi

غزل

زندگی یوں تو بہت عیار تھی چالاک تھی

شکیل شمسی

;

زندگی یوں تو بہت عیار تھی چالاک تھی
موت نے چھو کر جو دیکھا ایک مٹھی خاک تھی

جاگتی آنکھوں کے سپنے دل نشیں تو تھے مگر
میرے ہر اک خواب کی تعبیر ہیبت ناک تھی

آج کانٹے بھی چھپائے ہیں لبادوں میں بدن
اک زمانے میں تو فصل گل بھی دامن چاک تھی

تھا ہمیں بھی ہر قدم پہ ناک کٹ جانے کا ڈر
ان دنوں کی بات ہے جب اپنے منہ پر ناک تھی

تھا لڑکپن کا زمانہ سرفروشی سے بھرا
ہم اسی تلوار پر مرتے تھے جو سفاک تھی

دوستوں کے درمیاں سچ بولتے ڈرتا ہے وہ
دشمنوں کی بھیڑ میں جس کی زباں بے باک تھی