EN हिंदी
زندگی تھی یہ تماشا تو نہیں تھا پہلے | شیح شیری
zindagi thi ye tamasha to nahin tha pahle

غزل

زندگی تھی یہ تماشا تو نہیں تھا پہلے

راشد طراز

;

زندگی تھی یہ تماشا تو نہیں تھا پہلے
آدمی اتنا بھی تنہا تو نہیں تھا پہلے

ہر طرف شمع محبت کے اجالے تھے یہاں
صورتیں تھیں یہ اندھیرا تو نہیں تھا پہلے

داؤ پر جذبۂ الفت کو لگا دیتے تھے لوگ
پھر بھی دل اتنا شکستہ تو نہیں تھا پہلے

دیکھ لیتے تھے اسی روح کے اندر خود کو
آئینہ ہم پہ ادھورا تو نہیں تھا پہلے

کبھی جل جاتے تھے راہوں میں لہو کے بھی چراغ
روشنی پر کوئی پہرا تو نہیں تھا پہلے