زندگی شب کے جزیروں سے ادھر ڈھونڈتے ہیں
آنکھ میں اشک جو چمکیں تو سحر ڈھونڈتے ہیں
خاک کی تہہ سے ادھر کوئی کہاں ملتا ہے
ہم کو معلوم ہے یہ بات مگر ڈھونڈتے ہیں
کار دنیا سے الجھتی ہیں جو سانسیں اپنی
زخم گنتے ہیں کبھی مصرعۂ تر ڈھونڈتے ہیں
بے ہنر ہونا بھی ہے موت کی صورت اے دوست
زندہ رہنے کے لیے کوئی ہنر ڈھونڈتے ہیں
دستکیں کب سے ہتھیلی میں چھپی ہیں شہبازؔ
شہر اسرار کی دیوار میں در ڈھونڈتے ہیں
غزل
زندگی شب کے جزیروں سے ادھر ڈھونڈتے ہیں
شہباز خواجہ