زندگی رین بسیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ نفس عمر کے پھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
جسے نادان کی بولی میں صدی کہتے ہیں
وہ گھڑی شام سویرے کے سوا کچھ بھی نہیں
دل کبھی شہر سدا رنگ ہوا کرتا تھا
اب تو اجڑے ہوئے ڈیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
ہاتھ میں بین ہے کانوں کی لوؤں میں بالے
یہ ریاکار سپیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
سانس کے لہرئیے جھونکوں سے پھٹا جاتا ہے
جسم کاغذ کے پھریرے کے سوا کچھ بھی نہیں
آج انسان کا چہرہ تو ہے سورج کی طرح
روح میں گھور اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
وقت ہی سے ہے شرف دست دعا کو حاصل
بندگی سانجھ سویرے کے سوا کچھ بھی نہیں
فقر مخدوم ہے لج پال ہے لکھ داتا ہے
تاج بے رحم لٹیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
غزل
زندگی رین بسیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
شیر افضل جعفری