EN हिंदी
زندگی موت کے آغوش سے پیدا کرنا | شیح شیری
zindagi maut ke aaghosh se paida karna

غزل

زندگی موت کے آغوش سے پیدا کرنا

جنبش خیرآبادی

;

زندگی موت کے آغوش سے پیدا کرنا
ڈوب کر بحر میں طوفان سے کھیلا کرنا

آئے رونا بھی تو ہنسنے کا ارادہ کرنا
جوش غم میں نہ کبھی ضبط سے گزرا کرنا

دیکھنا شوق کی فطرت کو نہ رسوا کرنا
چشم مشتاق یونہی ان کا نظارہ کرنا

رنگ لائے گا عجب جلوہ‌ گہہ محشر میں
ذوق‌ دیدار مرا آپ کا پردہ کرنا

موج فطرت کا ہر انداز ہے تخریب شعار
اے چمن زار بہاروں سے نہ رشتہ کرنا

بہت آسان تھا ربی ارنی کہہ دینا
کوئی آساں نہ تھا جلووں کا نظارہ کرنا

چاک دامانیٔ گل بر سر معراج بہار
ہے جنوں خیز ادا ہوش کا دعویٰ کرنا

سیکھئے عقدہ کشائی کی ادائیں جنبشؔ
نہ ہوا کچھ بھی یہ تقدیر کا شکوہ کرنا