زندگی کیا ہر قدم پر اک نئی دیوار ہے
تیرگی دیوار تھی اب روشنی دیوار ہے
کیوں بھٹکتی پھر رہے ہیں آج ارباب خرد
کیا جنوں کے راستے میں آگہی دیوار ہے
بچ نہیں سکتی تغیر کے اثر سے کوئی شے
پہلے سنتی تھی مگر اب دیکھتی دیوار ہے
ہم تو وابستہ ہیں ایسے دور سے جس دور میں
آدمی کے راستے میں آدمی دیوار ہے
جذبۂ جہد و عمل سے زندگی کوہ گراں
بے عمل ہو زندگی تو ریت کی دیوار ہے
آج اپنے دشمنوں سے کھل کے لڑ سکتا نہیں
دشمنی کے راستے میں دوستی دیوار ہے
روح کیوں مضطر نہ ہو جامیؔ حریم جسم میں
جس طرف بھی دیکھتی ہے آہنی دیوار ہے

غزل
زندگی کیا ہر قدم پر اک نئی دیوار ہے
سید معراج جامی