زندگی کیا ہے اک سفر کے سوا
ایک دشوار رہ گزر کے سوا
کیا ملا تشنۂ محبت کو
ایک محروم سی نظر کے سوا
عشق کے درد کی دوا کیا ہے
سب سمجھتے ہیں چارہ گر کے سوا
کچھ نہیں غم گساریٔ احباب
اہتمام غم دگر کے سوا
کتنی تنہا تھیں عقل کی راہیں
کوئی بھی تھا نہ چارہ گر کے سوا
دولت سجدہ ہو سکی نہ نصیب
اور بھی در تھے تیرے در کے سوا
کچھ نہیں ہے فسوں طرازی حسن
عشق کی شوخئ نظر کے سوا
غزل
زندگی کیا ہے اک سفر کے سوا
صوفی تبسم