زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر
راستے کے پتھروں سے خیریت معلوم کر
ٹوٹ کر بکھری ہوئی تلوار کے ٹکڑے سمیٹ
اور اپنے ہار جانے کا سبب معلوم کر
جاگتی آنکھوں کے خوابوں کو غزل کا نام دے
رات بھر کی کروٹوں کا ذائقہ منظوم کر
شام تک لوٹ آؤں گا ہاتھوں کا خالی پن لیے
آج پھر نکلا ہوں میں گھر سے ہتھیلی چوم کر
مت سکھا لہجے کو اپنی برچھیوں کے پینترے
زندہ رہنا ہے تو لہجے کو ذرا معصوم کر
غزل
زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر
راحتؔ اندوری