زندگی کو ہم وفا تک وہ جفا تک لے گئے
اپنے اپنے فن کو دونوں انتہا تک لے گئے
لغزشوں میں کیا معافی کی توقع ہو کہ جب
بے گناہی کو بھی میری وہ سزا تک لے گئے
ساحلوں پر اور بھی خوش ذوق تھے لیکن مجھے
پانیوں کے رنگ ہر موج بلا تک لے گئے
جی رہی ہے اب تو بستی ایک سناٹے کے ساتھ
جبر کے موسم فقیروں کی صدا تک لے گئے
اک زبوں حالی تو تھی پر تم مری تاریخ کو
چند ہی برسوں میں دور ابتلا تک لے گئے
آسماں کی دشمنی اتنی بھی یک طرفہ نہیں
ہم بھی دھرتی کی بلاؤں کو خلا تک لے گئے
ہم نے خود اپنی دعاؤں کو کیا ہے بے اثر
ہم جو چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خدا تک لے گئے
کھو چکے تھے وقت کی پہچان بھی شہزادؔ ہم
اجنبی لمحے مگر اک آشنا تک لے گئے
غزل
زندگی کو ہم وفا تک وہ جفا تک لے گئے
شہزاد قمر