زندگی کی سخت زنجیروں میں جکڑا دیکھ کر
آج تم بھی ہنس رہے ہو مجھ کو تنہا دیکھ کر
اب تو وہ بھی مجھ سے کترا کر گزر جانے لگے
میرے ماحول پریشانی کا نقشا دیکھ کر
حوصلہ کس میں تھا جو دیتا برابر کا جواب
صبر کرنا ہی پڑا ان کا رویہ دیکھ کر
آج تجھ کو بھی ہنسی آنے لگی اے باغباں
نوجواں پھولوں کے ارمانوں کو پیاسا دیکھ کر
اہل ساحل رو رہے ہیں قطرے قطرے کے لئے
ظرف دریا رو رہا ہے ظرف دریا دیکھ کر
میری آنکھوں سے بھی میکشؔ گر پڑے اشک الم
پیر مے خانہ کو تنہائی میں روتا دیکھ کر
غزل
زندگی کی سخت زنجیروں میں جکڑا دیکھ کر
میکش ناگپوری