زندگی کی راہ میں اک موڑ ایسا آئے گا
جس کے آگے ہر کوئی خود کو اکیلا پائے گا
کون کتنا ضبط کر سکتہ ہے کرب ہجر کو
ریل جب چلنے لگے گی فیصلہ ہو جائے گا
آج بھی اس روٹھنے والے سے یے امید ہے
میری جانب دیکھ کر اک بار تو مسکائے گا
اس طرح دے گا سزا اپنائیت کے جرم کی
میں اسے اپنا کہوں وہ غیر کے گن گائے گا
اب ہماری آنکھ میں منظر نہ کوئی خواب ہے
تجھ سے اک رشتہ دھنک رنگوں کی چادر لائے گا
جل چکے مٹ بھی چکے کب سے غریبوں کے مکاں
یے دھواں کب تک ہمارے ذہن میں لہرائے گا
دے تو آئے اس کو سارے فیصلے کرنے کا حق
دل لرزتا ہے مقدمہ کس کے حق میں جائے گا
غزل
زندگی کی راہ میں اک موڑ ایسا آئے گا
خواجہ ساجد