EN हिंदी
زندگی کھنچ گئی مجھ سے ترے ابرو کی طرح | شیح شیری
zindagi khinch gai mujhse tere abru ki tarah

غزل

زندگی کھنچ گئی مجھ سے ترے ابرو کی طرح

مظفر وارثی

;

زندگی کھنچ گئی مجھ سے ترے ابرو کی طرح
اپنے ہی خون کا پیاسا ہوں لب جو کی طرح

وہ ستارا جو مرے نام سے منسوب ہوا
دیدۂ شب میں ہے اک آخری آنسو کی طرح

شعلۂ سوز دروں سرد ہوا جاتا ہے
کوئی سمجھائے صبا کو کہ چلے لو کی طرح

کوئی دیوانہ اٹھے خاک اڑانے کے لئے
آج بھی دشت ہیں پھیلے ہوئے بازو کی طرح

اس بھرے شہر میں کرتا ہوں ہوا سے باتیں
پاؤں پڑتا ہے زمیں پر مرا آہو کی طرح

شبنمی ہاتھ بڑھاؤں کہ کھلے دروازہ
بن کھلے پھول کے زنداں میں ہوں خوشبو کی طرح

چاہتے ہیں جو مظفرؔ غم ہستی سے فرار
بیٹھ جائیں وہ گڑھا کھود کے سادھو کی طرح