زندگی خراب ہو گئی
اور بے حساب ہو گئی
خار خار ہو گئی تھی
یک بہ یک گلاب ہو گئی
زلف کی گھٹا کھلی ابھی
ہائے مہتاب ہو گئی
دیکھتے ہی کھو گیا اسے
اس قدر شراب ہو گئی
دوستوں کی بات مان لی
سانس بھی عذاب ہو گئی
کل تلک دبی دبی رہی
آج انقلاب ہو گئی
شاعروں نے ٹانک دی چنر
شاعری شباب ہو گئی
غزل
زندگی خراب ہو گئی
دیپک شرما دیپ