زندگی خار زار میں گزری
جستجوئے بہار میں گزری
کچھ تو پیمان یار میں گزری
اور کچھ اعتبار میں گزری
منزل زیست ہم سے سر نہ ہوئی
یاد گیسوئے یار میں گزری
پھول گریاں تھے ہر کلی لرزاں
جانے کیسی بہار میں گزری
زندگانی طویل تھی لیکن
موت کے انتظار میں گزری
آپ سے مل کے زندگی اپنی
جستجوئے قرار میں گزری
جو بھی گزری بری بھلی ثانیؔ
آپ کے اختیار میں گزری
غزل
زندگی خار زار میں گزری
زرینہ ثانی