زندگی کے سراب بھی دیکھوں
نیند آئے تو خواب بھی دیکھوں
رات کاٹوں کسی خرابے میں
منہ اندھیرے گلاب بھی دیکھوں
حرف تازہ ورق ورق لکھوں
سادہ دل کی کتاب بھی دیکھوں
ڈوب جاؤں کسی سمندر میں
پھر جزیروں کے خواب بھی دیکھوں
زندگی میں حماقتیں بھی کروں
اس کا پھر سد باب بھی دیکھوں
آج دل کی بیاض میں لکھ کر
لفظ خانہ خراب بھی دیکھوں
پیاس دل کی بجھاؤں آنکھوں سے
رقص کرتے حباب بھی دیکھوں
غزل
زندگی کے سراب بھی دیکھوں
رسا چغتائی