زندگی کے ساز پر جلتے ہوئے نغمات ہیں
رقص فرما شعلۂ دل کی طرح ذرات ہیں
ہیں بگولوں کی طرح تار نفس بہکے ہوئے
زندگانی کی جنوں پرور سبھی آیات ہیں
ناز فرما جن کی تابانی پہ تھی عقل بشر
آج وہ خورشید و انجم کتنے کم اوقات ہیں
ہم کہ تھے دل داریٔ موج حوادث پر نثار
شور طوفاں سے عیادت دل نشیں جذبات ہیں
جن کو رکھتی تھی معطر تیری یادوں کی شمیم
تیغ کی جھنکار میں گم وہ حسیں دن رات ہیں
وقت کی محراب میں اک شمع نو روشن کریں
راز دان آرزو ہم وارث آفات ہیں
کون ڈھونڈے گرمیٔ رخسار خوباں اے سروشؔ
آتش پیکار سے شعلہ فگن جذبات ہیں
غزل
زندگی کے ساز پر جلتے ہوئے نغمات ہیں
متین سروش