زندگی کے کٹہرے میں اک بے خطا آدمی کی طرح
ہم مخاطب ہوئے آپ سے بے نوا آدمی کی طرح
دوریوں سے ابھرتا ہوا عکس تصویر بنتا گیا
گفتگو رات کرتی تھی ہم سے ہوا آدمی کی طرح
کون کیا سوچتا ہے ہمارے رویوں پہ سوچا نہیں
عمر ہم نے گزاری ہے اک مبتلا آدمی کی طرح
روزنوں تک سے کوئی مکیں جھانکتا یہ بھی ممکن نہ تھا
دستکیں دیتی پھرتی تھی باد صبا آدمی کی طرح

غزل
زندگی کے کٹہرے میں اک بے خطا آدمی کی طرح
ستار سید