EN हिंदी
زندگی کے کیسے کیسے حوصلے پتھرا گئے | شیح شیری
zindagi ke kaise kaise hausle pathra gae

غزل

زندگی کے کیسے کیسے حوصلے پتھرا گئے

رونق رضا

;

زندگی کے کیسے کیسے حوصلے پتھرا گئے
آرزو سے چل کے ترک آرزو تک آ گئے

یاد ہے اتنا کہ ابھرا تھا کوئی عکس جمیل
اور پھر یادوں کے سارے آئینے دھندلا گئے

میرے ماضی کے چمن میں تھے جو کچھ یادوں کے پھول
رفتہ رفتہ زندگی کی دھوپ میں کمھلا گئے

زندگی بھی ہے تمہارے غم کے پس منظر کی دین
جب بھی میں جینے سے تنگ آیا ہوں تم یاد آ گئے