زندگی کے کیسے کیسے حوصلے پتھرا گئے
آرزو سے چل کے ترک آرزو تک آ گئے
یاد ہے اتنا کہ ابھرا تھا کوئی عکس جمیل
اور پھر یادوں کے سارے آئینے دھندلا گئے
میرے ماضی کے چمن میں تھے جو کچھ یادوں کے پھول
رفتہ رفتہ زندگی کی دھوپ میں کمھلا گئے
زندگی بھی ہے تمہارے غم کے پس منظر کی دین
جب بھی میں جینے سے تنگ آیا ہوں تم یاد آ گئے

غزل
زندگی کے کیسے کیسے حوصلے پتھرا گئے
رونق رضا