EN हिंदी
زندگی کا سفر طے تو کرتے رہے | شیح شیری
zindagi ka safar tai to karte rahe

غزل

زندگی کا سفر طے تو کرتے رہے

خان رضوان

;

زندگی کا سفر طے تو کرتے رہے
رات کٹتی رہی دن گزرتے رہے

اک تصور ترا ذہن میں ہم لیے
شاہ راہ جہاں سے گزرتے رہے

اپنی آوارگی کا پتا ہے کسے
زخم کھاتے رہے اور سنورتے رہے

شام آئی نہا کر ترے حسن میں
چاند تارے فلک پر نکھرتے رہے

اپنا مطلوب و مقصود اب کچھ نہیں
خواب بنتے رہے اور بکھرتے رہے