زندگی اس طرح گزاری ہے
سلسلہ ختم سانس جاری ہے
درد غم اشک اور مایوسی
تیری امید سب پہ بھاری ہے
میں نے ڈھونڈھی تو مختصر پائی
دنیا جو دکھتی اتنی ساری ہے
آنکھیں ڈھو کر کے تھک گئی ہوں گی
نیند کا بوجھ سچ میں بھاری ہے
کھیل کھیلا تھا عمر کا لیکن
موت جیتی حیات ہاری ہے
غزل
زندگی اس طرح گزاری ہے
دھیریندر سنگھ فیاض