EN हिंदी
زندگی گو کشتۂ آلام ہے | شیح شیری
zindagi go kushta-e-alam hai

غزل

زندگی گو کشتۂ آلام ہے

آنند نرائن ملا

;

زندگی گو کشتۂ آلام ہے
پھر بھی راحت کی امید خام ہے

ہاں ابھی تیری محبت خام ہے
تیرے دل میں کاوش انجام ہے

عشق ہے میں ہوں دل ناکام ہے
اس کے آگے بس خدا کا نام ہے

آ کہاں ہے تو فریب آرزو
آج ناکامی سے لینا کام ہے

میں وہی ہوں دل وہی ارماں وہی
ایک دھوکا گردش ایام ہے

اپنے جی میں یہ کہ دنیا چھوڑ دیں
اور دنیا کو ہمیں سے کام ہے

جل چکے چشم اعزا میں چراغ
سو بھی جا ملاؔ کہ وقت شام ہے