زندگی دی ہے تو جینے کا ہنر بھی دینا
پاؤں بخشیں ہیں تو توفیق سفر بھی دینا
گفتگو تو نے سکھائی ہے کہ میں گونگا تھا
اب میں بولوں گا تو باتوں میں اثر بھی دینا
میں تو اس خانہ بدوشی میں بھی خوش ہوں لیکن
اگلی نسلیں تو نہ بھٹکیں انہیں گھر بھی دینا
ظلم اور صبر کا یہ کھیل مکمل ہو جائے
اس کو خنجر جو دیا ہے مجھے سر بھی دینا

غزل
زندگی دی ہے تو جینے کا ہنر بھی دینا
معراج فیض آبادی