زندگی چاک ہوئی کیا ہو رفو کی صورت
مل گئی خاک میں اب ذوق نمو کی صورت
حوصلے کیا ہوئے چڑھتے ہوئے دریاؤں کے
ریگزاروں میں کہاں کھو گئی جو کی صورت
خواہش سیم بدن سے ہوا وحشت کا نزول
نشۂ جسم نے کیا کر دی لہو کی صورت
دکھ بھری شام کے نیزے پہ سسکتے ہوئے لوگ
ذرے ذرے سے ٹپکتی من و تو کی صورت
ذائقے تلخ ہوئے آنکھ سے وحشت ٹپکی
کون یاد آیا جمالؔ آج عدو کی صورت

غزل
زندگی چاک ہوئی کیا ہو رفو کی صورت
خالد جمال